مر نہ جائے کہیں وہ ماں اکبر ع
اس طرح لو نہ ہچکیاں اکبر س
خوں جو سینے سے ہے رواں اکبر
کر لے تنہا چلے کہاں اکبر ع
لاشہ خیموں میں لے کے جانا ہے
زخم ماوں سے یہ چھپانا ہے
ایسے رگڑو نہ ایڑیاں اکبر ع
حالِ غربت تمہیں سنانا تھا
ماں نے سینے تمہیں لگانا تھا
آگئی درمیاں سناں اکبر ع
دل کی دھڑکن کو آسرا دے دو
ہم کو آوازِ مصطفیٰ دے دو
اب نہیں دو گے کیا آذاں اکبر ع
سُن کے تیری صدائے ادرکنی
دوڑے کہتے ہوئے یہ ابنِ علی ع
آرہا ہوں میں میری جاں اکبر ع
میری بینائی کھو گئی ہے پسر
مجھ کو آتا نہیں ہے کچھ بھی نظر
دو نا آواز ہو کہاں اکبر ع
ہاتھ سینے پے دھر لیا بیٹا
میں نے محسوس کر لیا بیٹا
زخم گہرا ہے میری جاں اکبر ع
ارے میرے یوسف تمہیں تھے پیارے
میری آنکھوں کے تم ہی تھے تارے
کھو گیا میرا کل جہاں اکبر ع
لکھ ضحا دل میرا بھی پھٹتا ہے
ساتھ برچھی کے دل بھی کھچتا ہے
کھینچتے ہیں وہ جب سنا ں اکبر ع